چالاک آدمی
Chalak Aadmi
ایک چالاک آدمی ایک
ہوٹل میں گیا اور خوب اچھے اچھے کھانے منگا کر کھائے۔کھانے کے بعد اُس نے چائے
منگوائی اور اپنی جیب سے مرےہوئے چوہے کو نکال کر(جووہ گھرسے مار کر لایا تھا)
بیرے کی نگاہ بچا کر چائے میں ڈال دیا۔اور ڈانٹ کر بیرے کو بلا یا اور زور زورسے
بگڑ کر کہنے لگا۔کمبختو!تم لوگ نجانے گاہکوں کو ا س طرح کیا کیا زہر یلی چیزیں
کھلا دیتے ہوگے۔دیکھو میری چائے میں مرا ہوا چوہا پڑا ہے، میں ابھی پولیس کو فون
کر کے تمہارا ہوٹل بند کر واتا ہوں۔
ہوٹل کا منیجر باتیں سن کر گاہک کے
قریب آیا۔اور بڑی لجاہت سے بولا۔صاحب کہیں سے یہ چوہا گرم چائے میں کود پڑا
ہوگا۔ہم معافی چاہتے ہیں۔آپ پولیس کو نہ بلائیں یہ لیجئے پچاس روپئے۔یہ ہم اپنی
غلطی کی سزا میں دے رہے ہیں۔اورآپ کے کھانے کے ہم کوئی پیسے نہیں لیں گے۔
گاہک نے کہا!ٹھیک ہے ہم تو مان جاتے
ہیں مگر خیال رکھنا آئندہ کسی گاہک کے ساتھ ایسا نہ ہو۔ورنہ کسی دم تو تمہارا ہوٹل
بند ہوہی جائے گا۔
اس طرح چالاک آدمی نے پیٹ بھر کر اچھا
کھانا بھی کھایا اور پچاس روپئے نقد بھی کما لئے۔
وہ جب باہر نکلا تو
ایک اور آدمی جو اسی ہوٹل میں پہلے سے کھانا کھا کر اور پیسے ادا کر کے
جارہاتھا۔مگر چالاک آدمی کی ڈانٹ ڈپٹ سُن کر رُک گیا تھا۔ وہ بھی باہر نکلا اور
چالاک آدمی سے پوچھا کیوں صاحب ؟آخر چائے کے کپ میں چوہا کیسے گرا کہ بیرے نے
دیکھا تک نہیں۔
چالاک آدمی نے بتا یا!چوہا تو میں گھر
سے مار کر لایا تھا جس سے کھانا بھی مفت کھایا اور پیسے بھی کمائے۔
دوسراآدمی سوچنے
لگا!یہ تو واقعی بڑی چالاکی تھی۔
پھر دوسرے دن وہی
دوسرا آدمی ہوٹل میں کھانا کھانے گیا اور کھانے کے بعد اُس نے بیرے سے چائے لانے
کو کہا!بیرے نے معذرت کرتے ہوئے کہا!صاحب آج چائے تو نہیں ہے۔
وہ آدمی بولا!کمبخت چائے نہیں ہے تو
ہم چوہا کیا تمہارے منہ میں ڈالے گا۔ہم تو گھر سے پیسے بھی لیکر نہیں آیا ۔اب
کھانے کابل کیسے چکے گا؟